shabd-logo

افسانہ 🍁 زخمی گلاب🍁

25 July 2022

81 Viewed 81
🍁 افسانہ 🍁 🌹 زخمی گلاب 🌹
تحریر : 🍂 زویا شیخ 🍂


نادیہ نادیہ وہ آواز دیتا ہوا گھر میں داخل ہوا.
نادیہ یہ کیا ہر وقت تم اندھیرے کمرے میں بند رہتی ہو؟ عجیب حالت بنا رکھی ہے اپنی اور گھر کی؟ وہ شدید غصے میں بڑبڑا رہا تھا.
نادیہ کمرے سے نکلی تو اس کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے.
خدا کے لئے کاشف اتنی تیز آواز میں تو نہ بولا کریں، میرا بدن کانپنے لگتا ہے. 
ہاں تو اب میں غصہ بھی تمھاری مرضی کے حساب سے کروں گا نا؟ ہاتھ کانپنے لگتے ہیں، پیر ہلنے لگتے ہیں، سر دکھنے لگتا ہے، تمھاری روز روز کی نوٹنکی ہی ختم نہیں ہوتی. 
نادیہ آنسوؤں کو بہنے سے روکنے کی کوشش میں ناکام ہوتی جارہی تھی، حلق میں آنسوؤں کا گولا پھنسنے لگا تھا.
اب کھڑی منھ کیا دیکھ رہی ہو پانی لے کے آؤ....کاشف دہاڑا. 
نادیہ نے وقت غنیمت جانا اور کچن کی طرف بھاگی، کچن تک پہنچتے پہنچتے اس کے آنسو اس کے دوپٹے میں اپنی جگہ بنا چکے تھے، فریج سے پانی لیا، بسکٹ کا پیکٹ کھولا، ٹرے میں بسکٹ اور پانی رکھ کے دالان میں رکھی میز پہ لا کر رکھ دی، کاشف موبائل میں گیم کھیلنے میں مصروف ہوچکا تھا، موبائل پہ نظریں جمائے جمائے اس نے پانی اٹھایا اور ایک سانس میں پی گیا.
نادیہ نے ابھی روٹی نہیں بنائی تھی، وہ کاشف کے آنے کے بعد روٹی بناتی تھی تاکہ کھانے کے وقت تک ہلکی گرم روٹی رہیں. 
روٹی بنانے کے بعد اس نے کچن صاف کیا، سبزی گرم کی اور کاشف سے کھانا کھانے کا پوچھنے آ گئی. 

ہاں لگا لو....بھوک بھی تیز لگ رہی ہے، وہ غصہ بالکل بھول چکا تھا
نادیہ خاموشی سے کھانا لگا کے دسترخوان پہ بیٹھ گئی، خالی ذہن سے اس نے پلیٹ اپنی طرف کی اور سبزی نکال کے روٹی ہاتھ میں پکڑ لی. 
کہاں گم ہو؟ کھانا کھاؤ بھی اب...
جج...جی کھا رہی ہوں، اس نے جلدی جلدی روٹی توڑنا شروع کردیا.
اداس کیوں ہو؟ کاشف نے اس سے ایسے پوچھا جیسے وہ بالکل بے خبر ہو....
کچھ پوچھ رہا ہوں؟ اس بار اس کے لہجے میں ہلکی سی سختی اور ناگواری اتر آئی تھی. 
کک.....کچھ نہیں....وہ بسسس...کبھی سر میں درد...کبھی....اس کے ذہن میں کاشف کے کچھ دیر پہلے کہے گئے لفظ گونجے.
کیا کچھ نہیں...؟
بھوک نہیں ہے، آپ کی وجہ سے بس ساتھ دینے بیٹھ گئی..
اچھا ٹھیک ہے...چلو کھاؤ اکیلے کھاتے میرا من بھی نہیں لگتا، یہ کہہ کے وہ ہنس پڑا. 
نادیہ نے ایک سرسری سی نظر اس کی طرف ڈالی اور سوچنے لگی آخر یہ بندہ کتنی جلد رنگ بدل لیتا ہے، نہ کھل کے جینے دیتا ہے نہ مرنے، نہ ہنسنے دیتا ہے نہ رونے...آخر چاہتا کیا ہے؟
پھر تم....کچھ سوچنے لگیں...؟ اسی لئے کہتا ہوں نادیہ...یہ ڈائری لکھنا بند کر دو، تمھارے سر میں جو درد ہے، وہ اسی وجہ سے ہے. ایک بار میری بات مان کے دیکھو، دیکھنا ایک بھی پین کلر نہیں لینا پڑے گی.

وہ خاموشی سے اس کی باتین سنتی رہتی اور اگنور کرتی رہتی، اسے پتا تھا اگر اس نے لکھنا چھوڑ دیا تو سر کا درد ٹھیک ہونا تو دور وہ پاگل ہوجائے گی.
کاشف کی شادی کو پانچ سال بیت چکے تھے، وہ کوئی بہت پڑھا لکھا یا بہت پیسے والا نہیں تھا، البتہ اتنا ضرور تھا کہ خدا نے اس کو بے انتہا خوبصورتی سے نوازا تھا، ہلکے لال کلر کے بال، گورا رنگ، بھوری آنکھیں، لمبا قد، وہ ایک نظر میں کسی بھی لڑکی کا آئیڈیل بن سکتا تھا لیکن اس کے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کی اپنی بیوی اس سے اتنا بیزار کیوں رہتی تھی، وہ اسے بس لکھنے سے ہی تو روکتا تھا کیونکہ اسے پسند نہیں تھا، بالکل اس نے اس کے دوستوں سے رابطہ ختم کروا دیا تھا لیکن یہ تو اس کا حق تھا نا، وہ  اتنی سی بات سے اس سے ناراض تو نہیں رہ سکتی تھی.
نادیہ اس کی کزن ہی تھی، کزن نہ ہوتی تو وہ یہ بھی سوچ سکتا تھا کہ شاید نادیہ کو کوئی دوسرا شخص پسند ہو لیکن نادیہ کی زندگی بچپن سے لے کر اب تک، اس کے سامنے کھلی کتاب کی مانند تھی، البتہ اس نے کبھی نادیہ کو رشتہ داروں کے ساتھ ہنستے بولتے یا فیملی کی کسی بھی تقریب میں بخوشی حصہ لیتے نہیں دیکھا تھا. ہو سکتا ہے اسے پڑھائی سے فرصت نہ ملتی ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ شرماتی ہو لیکن اب نادیہ کا رویہ اس کو پریشانی میں مبتلا کر رہا تھا، وہ اس کی باتوں پہ ہنستی بھی تھی، اس کو ہمہ وقت میسر بھی رہتی تھی، وہ جہاں کہتا تھا فوراً چلنے کو تیار بھی ہو جاتی تھی، رب نے شادی کے ایک سال بعد ہی انہیں بیٹے جیسے نعمت سے نوازا تھا، 

وہ اس کا بھی خوب خیال رکھتی تھی، پھر بھی نادیہ میں کچھ تو تھا جو کاشف کو پریشان کر رہا تھا، وہ اس کے ذرا سے تیز بولنے پر سہم جاتی تھی، وہ اور جوڑوں کو دیکھتا کہ آپس میں جھگڑتے غصہ کرتے، پھر ایک ہو جاتے لیکن نادیہ....اس نے تو کبھی نظر اٹھا کے بھی نہیں دیکھا تھا وہ بس خاموشی سے گھر کے کام کرتی، کام کرتے وقت اپنی دھن میں مگن رہتی، کبھی کوئی کبھی کوئی گانا اس کے لبوں پہ مچلتا رہتا، دیکھنے والا یوں محسوس کرتا جیسے وہ کچن میں کام نہیں کسی پارک میں گھوم رہی ہو...جب بھی اسے فری وقت ملتا ڈائری لے کے بیٹھ جاتی اور پتا نہیں کیا کیا لکھتی رہتی، وہ اردو میں لکھتی تھی اور کاشف کو اردو بالکل بھی نہیں آتی تھی. کاشف کو بھی بات کرنے کا بہت زیادہ شوق نہیں تھا، گھر کا بڑا بیٹا ہونے کے ناطے وہ ذمہ داری نبھانے والا رعب دار، خاموش مزاج لڑکا تھا، اس لئے شروع میں اسے نادیہ کا کم بولنا اچھا لگتا...وہ جاب سے آتا پانی پیتا، کھانا کھاتا، فیملی کے ساتھ کچھ دیر اٹھتا بیٹھتا، نادیہ بھی اس کے ساتھ ساتھ رہتی لیکن جب وہ کمرے میں آتا، موبائل میں گیم کھیلنا شروع کر دیتا اور نادیہ کوئی کتاب لے کے بیٹھ جاتی...اس نے ابھی تک ان باتوں کو اگنور کیا تھا لیکن اب شادی کے پانچ سال بعد اسے یہ سب برا لگنے لگا تھا...وہ چاہتا تھا کہ وہ کہیں بھی مصروف رہے لیکن نادیہ کا سارا فوکس اس کی طرف ہو، اسے نادیہ کا اب یہ اکھڑا اکھڑا مزاج برا لگنے لگا تھا...اسے لاکھ منع کرنے پہ بھی نہ تو وہ ڈائری لکھنا چھوڑ رہی تھی نہ کتابیں پڑھنا.

حالانکہ لوگ ان کی ازدواجی زندگی سے بہت متاثر ہوتے تھے...پورے خاندان میں مثالیں دی جاتی تھیں اور دی بھی کیوں نہ جاتیں؟ شادی کے پانچ سال ہو گئے تھے اور آج تک کاشف اور نادیہ بھی ذرا سا بھی جھگڑا نہیں ہوا تھا. کسی بھی محفل میں وہ دونوں جاتے تو محفل کی نظروں کا مرکز بن جاتے، کاشف نادیہ کو کبھی کوئی چیز کھلاتا تو کبھی نادیہ کاشف کو...دونوں اپنی دنیا میں مگن رہتے اور کہنے والے کہہ رہے ہوتے....دیکھو کتنی محبت ہے ان دونوں میں، نادیہ کی تو قسمت ہی کھل گئی، جو اسے کاشف جیسا سلجھا خوبصورت اور خیال رکھنے والا شخص ملا ہے...تو کوئی کہتا...شادی کے اتنے سال ہو گئے لیکن لگتا ایسے ہے جیسے ابھی دو ماہ کا نیا نیا جوڑا ہو.
کاشف اور نادیہ فیملی کی ہر محفل میں لیٹ پہنچتے اور جلدی واپس آجاتے...زندگی ویسے بہت سکون سے گزر رہی تھی لیکن کاشف کو ایسا لگنے لگا تھا کہ نادیہ اندر اندر گھلتی جارہی ہے، کمزوری اس کے چہرے سے صاف نمایاں ہونے لگی تھی، چڑچڑا پن اس کے کاموں سے جھلکنے لگا تھا.
کاشف نے آنکھیں کھولیں تو پاس ہی لیٹی نادیہ بے خبر سوچکی تھی، کاشف کو سوچتے سوچتے وقت کا اندازہ نہ ہوا تھا لیکن اب گھڑی میں تین بجتا دیکھ کے اس کے ماتھے پہ بیچینی کی لیکریں نمایاں ہونے لگیں، اسے صبح جاب پہ بھی جانا تھا، اس نے سوچا چھٹی والے دن نادیہ کو کسی سائکاٹرسٹ کو دکھا دوں گا تاکہ کچھ مسئلے کا حل نکالا  جا سکے اور پھر خود کروٹ لے کے سونے کی نیت سے آنکھیں موند کے لیٹ گیا.

صبح اٹھتے ہی اس نے پہلا کام یہ کیا کہ شہر کے جانے مانے ڈاکٹر شاہنواز کو اپائنمنٹ کا میسج بھیج دیا اور خود جاب کے لئے چلا گیا...کچھ دیر بعد اسے ہاسپٹل سے کال آئی...ادھر سے ہیلو کے بعد فوراً ہی سوال کیا گیا، آپ کو کسے دکھانا ہے...؟
جی اپنی وائف کو...کاشف نے سہولت سے جواب دیا.
آپ کسے دکھانا چاہتے ہیں...جونیر ڈاکٹر یا سینیر ڈاکٹر...؟
یہ پوچھنے کی وجہ؟ ظاہر ہے ہر انسان سینیئر ڈاکٹر کو ہی دکھانا پسند کرے گا...اپنی عادت کے مطابق اس نے سخت لہجے میں کہا.
دیکھیں مسٹر کاشف آپ ناراض مت ہوں، جونیئر ڈاکٹر کی فیس کم ہوتی ہے اور وہ روز ہی دستیاب ہوتے ہیں جبکہ سینیئر ڈاکٹر کی فیس زیادہ ہے اور وہ صرف ہفتے میں تین دن ہی دیکھتے ہیں.
جی ٹھیک ہے....مجھے ڈاکٹر شاہنواز کو ہی دکھانا ہے.
ٹھیک ہے جی....آپ اپنی وائف کو تین دن بعد گیارہ بجے لے کے آ جائیے گا...
آپ کا دن شبھ ہو...یہ کہہ کے فون کاٹ دیا گیا اور کاشف اپنے کام میں مصروف ہوگیا.
آج سنیچر کا دن تھا اور اسے نادیہ کو ڈاکٹر کے پاس دکھانے لے جانا تھا.
نادیہ آج گیارہ بجے تیار رہنا ڈاکٹر پاس چلنا ہے..اس نے نادیہ کو آگاہ کیا.
ڈاکٹر.....لیکن ڈاکٹر پاس کیوں؟ نادیہ نے تعجب سے پوچھا.
ارے....وہ تمھارے سر میں درد رہتا ہے....تو سوچا  ڈاکٹر کو دکھا کے مشورہ کر لوں....اس نے کہا.

نادیہ نے  مسکراتے ہوئے سر ہلا دیا، اس کے لئے یہ بڑی بات تھی کہ کاشف نے اس کی تکلیف کو سمجھا تھا اور اسے دور کرنے کی کوشش کر رہا تھا..
ڈاکٹر شاہنواز ایک چھوٹے گھر کا بڑا ڈاکٹر تھا، اس نے اپنی محنت کے دم پہ یہ مقام حاصل کیا تھا، آج اس کے پاس مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی لیکن وہ اپنے اس وقت کو نہیں بھولا تھا جب اس کے پاس ایک سر درد کی گولی لینے کے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے، وہ مریض کو پہلے سنتا تھا ان کے حالات سمجھتا تھا اور پھر ان کا علاج کرتا تھا، وہ غریبوں کا علاج جتنا ممکن ہو سکتا کم پیسے میں کرتا لیکن وہ مریض کو اور مریض کے گھر والوں کو سختی سے منع کردیتا کہ یہ بات ان دونوں کے علاوہ کسی کو نہ پتا چلے...اسے پتا تھا اگر اس کا یہ راز کھل گیا تو اس کے پاس اچھے بھلے لوگ بھی غریب بن کر آئیں گے اور پھر جو محتاج ہیں وہ ان کی مدد نہیں کر سکے گا...روز کی طرح اس نے میز پہ رکھی فائلیں اٹھائیں اور دیکھنے لگا....وہ دن میں صرف چار کیس دیکھتا تھا...آج اسے جو کیس دیکھنے تھے اس میں ایک کیس شہر کے جانے مانے بزنس مین عدیل احمد کا تھا، دوسرا کیس کسی بچے کا تھا جس کا دماغی توازن اچانک بگڑ گیا تھا اور تیسرا کیس کسی نادیہ نامی لڑکی کا تھا، چوتھا کیس اس کے ایک پرانے مریض کا تھا جسے وہ ہر مہینے دیکھتا رہتا تھا..

اس نے پہلے کچن صاف کیا، بیڈ کی چادر بدلی، الٹا سیدھا ناشتہ کیا اور ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوگیا...وہ شہر کا سینیئر ڈاکٹر تھا لیکن اس نے زندگی نارمل انسانوں والی ہی چنی تھی، وہ گھر کے ہر چھوٹے بڑے کام خود کرتا، ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود وہ نخریلا نہیں تھا، اس نے شروع سے ہی ماں باپ کو بیمار دیکھا تھا، اس کی ساری زندگی ان دونوں کی خدمت میں ہی گزری تھی، خاطر خواہ علاج نہ ہو پانے کی وجہ سے وہ اپنے والدین کو بچا نہیں پایا تھا، بیس سال کی عمر میں دونوں ہی اسے چھ ماہ کے فرق سے چھوڑ کر خدا کو پیارے ہو گئے تھے....وہ جانتا تھا کہ اللہ نے جسے جتنی زندگی دی ہے، وہ اتنا ہی جئے گا لیکن پھر بھی اسے یہ خیال سونے نہیں دیتا تھا کہ اگر اس کے پاس پیسے ہوتے تو شاید آج اس کے امی ابو اس کے پاس ہوتے....دن بھر کی تھکن اور رات بھر کی سوچوں نے اسے ذہنی مریض بنا دیا تھا، ایک سال تک وہ ڈپریشن سے لڑتا رہا تھا اور پھر اس نے سوچا تھا کہ وہ خود بھی اس بیماری سے نکلے گا اور دوسروں کو بھی نکالے گا...یہ سوچ جتنی حتمی تھی اتنی ہی خوش بخت بھی ثابت ہوئی وہ کوشش اور محنت کرتا رہا اور بخت اس پہ مہربان ہوتی رہی. چند سالوں میں وہ ایک بہترین سائکاٹرسٹ بن چکا تھا. 

اس نے ہاسپٹل میں قدم رکھا تو ہر طرف سے ہائے....ہیلو...آداب....سلام کی آوازیں آنے لگیں، وہ سر جھکا کے سب کا ممکنہ حد تک جواب دیتا ہوا کیبن میں چلا گیا...پہلا مریض لایا گیا اس نے اس کی ہسٹری دیکھی، اسے کسی چھوٹے ڈاکٹر نے اس کی طرف ریفر کیا تھا، کیس اتنا کامپلیکیٹیڈ نہیں تھا جتنا ڈاکٹروں نے اسے ڈرا دیا تھا، تھوڑی بہت دوا لکھنے کے بعد اس نے کچھ ہدایات دیں اور دوسرے مریض کو بھیجنے کا کہہ کے خود انتظار میں بیٹھ گیا..
سر میں اندر آ جاؤں؟ اسے دروازے کے باہر سے ایک لیڈی کی آواز سنائی دی.
جی...جی...آ جائیں...میں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا، اس نے فائل پہ نظر گاڑے گاڑے کہا.
جی مس نادیہ کیا پریشانی ہے آپ کو..؟
سر میں درد رہتا ہے..
کب سے؟
بچپن سے...نادیہ نے بچپن سے...اتنی معصومیت سے کہا تھا کہ وہ نظر اٹھائے بغیر نہ رہ سکا، اس کے سامنے صوفے پہ ایک پچیس چھبیس سالہ سانولی سی لڑکی بیٹھی تھی جو اس کے اچانک سے دیکھنے سے گھبرا گئی...
مس نادیہ آپ گھبرائیں نہیں...میں اپ کا ڈاکٹر نہیں دوست ہوں...شاہنواز اسے ریلیکس کرنے کے انداز میں کہا.

تو دوست سے ملنے کے لئے کوئی پیسے دیتا ہے کیا؟ ایک بار پھر نادیہ نے معصومیت سے سوال کیا تو شاہنواز کی ہنسی چھوٹ گئی...مطلب میں آپ کے پیسے واپس کر دوں تبھی آپ مجھے دوست مانیں گی...اسے اس کی باتیں لطف دے رہی تھیں، اس نے مزید اسے چھیڑتے ہوئے کہا.
نہیں...پیسے واپس نہ کریں...ڈاکٹر ہی بنے رہیں... میں اجنبیوں کو دوست نہیں بناتی...سوری...اس بار اس نے روڈلی جواب دیا تو شاہنواز کو احساس ہوا، شاید وہ کچھ زیادہ ہی بول گیا تھا، شاہنواز نے سوری کہتے ہوئے بات پھر آگے شروع کی. 
چلیں مان لیا آپ کو یہ سر درد بچپن سے ہے لیکن یہ کب ہوتا ہے؟ اس کی کوئی وجہ...؟ 
جی....جب بھی مسلسل پڑھائی کرو یا ذہن پہ زور دو یا پھر تب جب کوئی شخص ایسا کام کرنے کو کہہ دے جو میری مرضی نہ ہو یا پھر کوئی مجھے میری مرضی کے کام کرنے سے روک دے...
ہمممممممممم.....شاہنواز نے سوچنے کے سے انداز میں کہا. 
میں سب کی طرح یہ نہیں پوچھوں گا کہ آپ کو کبھی محبت ہوئی بلکہ میرا سوال یہ ہے کہ آپ کی محبت کے بارے کیا رائے ہے؟ 
محبت ایک ظالم بادشاہ کے جیسی ہے...نادیہ نے فوراً جواب دیا.
مطلب..میں سمجھا نہیں...

مطلب یہ کہ جیسے ظالم بادشاہ وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور اگر وہ ہو جاتا جو وہ چاہتا تو خوش ہوتا ہے اور اگر وہ نہیں ہو پاتا تو اپنی رعایا پہ اپنا غصہ اتارتا ہے....اسی طرح محبت بھی اپنے کرنے والوں سے وہی کرواتی ہے جو وہ چاہتی ہے اور اگر وہ کسی مجبوری کے تحت وہ سب نہ کر سکیں جو وہ چاہتی ہے تو وہ ان کو ایک مسلسل عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے...
اب یہ جاننے کے بعد تو صاف ظاہر ہوا کہ نہ آپ نے کبھی محبت کی ہے نہ آگے کر سکتی ہیں....شاہنواز نے مسکراتے ہوئے کہا تو ساتھ نادیہ بھی مسکرا دی..
جی کہہ سکتے ہیں...
اچھا آپ نے کبھی کوئی چیز کھوئی ہے اگر کھوئی تو اس چیز کے کھونے کے بعد آپ کا رد عمل کیسا رہا؟ شاہنواز نے سوال کیا.
جی...اپنا وجود...اور وجود کھونے کے بعد کسی بھی قسم کی، کسی بھی رد عمل کی کوئی گنجائش نہیں رہتی...نادیہ نے کہا.
ارےےےے شاہنواز اس بار پھر چونکا تھا
آپ جینا چاہتی ہیں...؟ اس بار اس نے اس کی طرف دیکھ کے گہرے انداز میں پوچھا...

نادیہ اس کی آنکھیں اپنی طرف اٹھی دیکھ کے ساکت سی ہوگئی، اسے اپنے سامنے بیٹھا شخص کہیں سے بھی ڈاکٹر نہیں لگ رہا تھا، نہ ڈاکٹرز والا لہجہ نا لباس نہ باتیں نہ ایٹیٹیوڈ...
کہاں کھو گئیں مس نادیہ....؟ میں آپ کے جواب کا انتظار کر رہا ہوں..
جی...جی....کیا پوچھا آپ نے؟ اس نے ذہن میں آتے خیال کو جھٹکا اور پھر اپنا کانفڈینس بحال کرتے ہوئے بولی. 
جی میں نے پوچھا آپ کو زندگی سے پیار ہے..؟ 
جی ہے لیکن اس زندگی سے جو زندگی میں جینا چاہتی ہوں.
اچھااا تو آپ کیسی زندگی جینا چاہتی ہیں...؟ 
کیا فائدہ اس چیز کے ذکر کا جو ممکن نہیں...اس بار نادیہ نے تھکے تھکے سے لہجے میں جواب دیا.
دیکھیں مس نادیہ آج کل ناممکن کچھ بھی نہیں ہے...آپ بتائیں تو آپ کیسے جینا چاہتی ہیں..؟
تنہاااا..
تنہا مطلب....؟

آپ اتنے بڑے ڈاکٹر ہیں اور آپ کو تنہا لفظ کا مطلب نہیں پتا...؟تعجب ہے. 
مجھے مطلب پتا ہے لیکن اکثر اوقات کہنے والا کچھ اور کہتا ہے، سمجھنے والا کچھ اور سمجھتا ہے، اس لئے میں آپ سے سننا چاہتا ہوں..
تنہا مطلب مجھے کسی بھی رشتے میں بندھ کے نہیں رہنا...نادیہ نے توضیح کی.
مطلب آپ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ آپ کو اپنے شوہر سے طلاق چاہیے ہے..؟ شاہنواز نے ایسے کہا جیسے وہ مرض کی تہہ تک پہنچ گیا ہو. 
نہیں....بالکل نہیں، اللہ توبہ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی، بس مجھے اپنی ذات میں کسی کا دخل پسند نہیں، مجھے میرے لئے کہی گئی کسی کی باتیں پسند نہیں، مجھے نہ اپنے اوپر کی گئی تعریف پسند ہے نہ تنقید...
لیکن مس نادیہ میاں بیوی کو اللہ تعالیٰ نے اک دوسرے کا لباس بتایا ہے، اس کا مطلب سمجھتی ہیں نا آپ...؟
جی بالکل سمجھتی ہوں...بلکہ بہت اچھے سے سمجھتی ہوں..لیکن آپ یہ بتائیں کہ میرا مزاج، میری فطرت اگر ایسی ہے تو کس نے بنائی ہے....؟

اللہ تعالیٰ نے ہی بنائی ہے نا، جب ہم اس کی اس بات کو کھلے دل سے قبول کر رہے ہیں تو پھر اس کو کیوں نہیں کرسکتے...؟ نادیہ کی بات سن کر شاہنواز حیران رہ گیا، اس کی دس سالہ ڈاکٹری زندگی میں پہلا کیس ایسا ملا تھا جس میں وہ خود الجھتا ہوا محسوس کر رہا تھا، اس کے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نادیہ کے لئے کیا دوا تجویز کرے اور کیا ہدایات دے...اس نے ایک بار پھر نادیہ کو نظر اٹھا کے دیکھا، سانولی رنگت صاف نمایاں ہو رہی تھی، چہرے پہ میک-اپ کے نام پہ کریم تک نہیں لگی تھی، بڑی بڑی آنکھوں میں کانفڈینس سامنے والے کو ہلا کے رکھ دینے کے لئے کافی تھا...وہ ہر بات کا اتنے اطمینان سے جواب دے رہی تھی جیسے وہ کسی انٹرویو کے لئے تیاری کر کے آئی ہو...
مس نادیہ آپ مجھ سے کل تین بجے میرے گھر پہ ملیں میں ایسے کیس وہاں فرصت سے دیکھتا ہوں..
ایسے کیس مطلب...؟ اس نے چونک کے پوچھا.
ایسے مطلب آپ جیسی ذہین لڑکیوں کے کیس کیونکہ انہیں سمجھنے کے لئے پہلے مجھے انہیں سمجھنا پڑتا ہے اور اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے نا...
جی جی....اوکے اللہ حافظ...
وہ یکدم سے اٹھی اور کیبن سے باہر نکل گئی

کیبن سے باہر نکلتے ہوئے وہ مسکرا رہی تھی، وہ جب کسی کو اپنی باتوں میں پھنسا دیتی یا ہرا دیتی تو وہ بہت خوش ہوتی تھی، اس کو اپنا آپ بڑا ہلکا ہلکا محسوس ہوا. گھر پہنچی تو کھانا تیار تھا، جوائنٹ فیملی کے اگر دس نقصانات ہیں، تو پانچ فائدے بھی ہیں، بندہ تھکا ہارا آئے تو کھانا ضرور مل جاتا ہے، اس نے کھانا کھایا، نماز پڑھی اور کاشف کو کال کرنے لگی...
السلام علیکم....
وعلیکم السلام...کیا ہوا دوا مل گئی؟ کاشف نے عجلت میں پوچھا.
جی....وہ دوا کل دیں گے.
کل.....لیکن آج کیوں نہیں؟
وہ کہہ رہے تھے، تھوڑا اور وقت سمجھیں گے پھر دوا دیں گے.
سمجیں گے....کیا مطلب؟ یہ کوئی ریاضی کے سوال ہیں جو وہ پہلے سمجھی‍ں گے پھر حل کریں گے..؟ یہ ڈاکٹروں کے چونچلے میری سمجھ سے باہر ہیں، انہیں بس مریض ملنا چاہیے کھال کھینچنے کے لئے، کاشف اپنے مزاج کے مطابق دھن میں بولتا چلا گیا، پھر اچانک اسے خیال آیا کہ دوسری طرف خاموشی ہے..
اب کیا ہوا...؟ بولو بھی کچھ...

کیا بولوں؟ آپ کہیں تو کل نہ جاؤں....ویسے بھی میں نے کہا تھا نا کہ مجھے نہ تو ڈاکٹر کی ضرورت ہے نہ دوا کی.
نہیں......کل ایسا کرنا تم خود رکشہ منگوا کے چلی جانا، میں مصروف رہوں گا.
جی اوکے.....اس نے فون رکھا اور بیزاری سے بستر پہ لیٹ گئی، اسے کاشف کا مزاج سمجھ ہی نہیں آتا تھا، خود کہتا ڈاکٹر کو دکھا دو اور پھر خود ڈاکٹر کو برا بھلا کہتا، وہ کسی بیماری کو جیسے مانتا ہی نہیں تھا، اگر ڈاکٹر ٹیسٹ لکھ دیتے تو وہ منع کر دیتا اور بس دوا لینے پہ اکتفا کرتا، اکثر ڈاکٹر اس سے چڑ بھی جاتے تھے...وہ جب آگے بڑھ کے بات کو سنبھالتی تو اس کے کانوں میں لوگوں کی آوازیں سنائی دیتیں کہ عجیب قسم کا بندہ ہے، بات کرنے کی بھی عقل نہیں، وائف سے ہی سیکھ لو کچھ، اور وہ کاشف کو باتوں باتوں میں لوگوں سے دور لے کر چلی جاتی کیونکہ وہ جانتی تھی اگر کاشف کے کانوں میں یہ بات پڑ گئی تو پورے ہاسپٹل میں اودھم مچ جانا ہے اور وہ اس جھگڑے سے بہت ڈرتی تھی، اسی وجہ سے وہ کاشف کے ساتھ باہر نکلتے خاص کر مارکٹ یا اسپتال جاتے گھبراتی تھی.
چار بجنے والا تھا، آج اس نے پورا دن احمد کی خیریت بھی معلوم نہیں کی تھی، جو تین چار دن سے نانی کے گھر گیا ہوا تھا، اس نے امی کو کال لگائی اور باتوں میں مصروف ہو گئی.

ادھر شاہنواز نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی باتوں میں الجھتا جا رہا تھا، وہ جتنا خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتا اتنا ہی اس کا ذہن اس لڑکی کی طرف چلا جاتا، وہ سوچ سوچ کے پاگل ہو رہا تھا کہ اس نے اسے کل بلا تو لیا ہے لیکن کیا بات کرے گا؟ کیا پوچھے گا؟ اسے پتا تھا کہ یہ کیس دواؤں سے زیادہ مریض کو سمجھنے اور سمجھانے سے ٹھیک ہونے والا تھا لیکن مریض خود کو مریض سمجھتا بھی تو ہو، اس کے پاس تو ہر چیز کا ایسا جواب موجود ہوتا تھا جس سے سوال کرنے والا خود الجھن میں مبتلا ہو جائے، وہ اسے سوچتے سوچتے سو گیا...جیسے ہی اس کی نیند گہری ہوئی، اس نے دیکھا کہ نادیہ اس کے سامنے بیٹھی ہے اور چیخ چیخ کے رو رہی ہے، اس سے اس کا رونا برداشت نہیں ہوا تو اس نے آگے بڑھ کے اسے چپ کرانا چاہا....جیسے ہی اس نے اس کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا، ہاتھ ہوا میں جھول گیا اور اس کی آنکھ کھل گئی.
اس کا پورا بدن پسینے میں شرابور ہو گیا تھا، اس نے جلدی سے پاس رکھی پانی کی بوتل اٹھائی اور ایک سانس میں پیتا چلا گیا...وہ سینکڑوں کیس دیکھ چکا تھا، اس میں اس نے بہت سی خوبصورت لڑکیوں کے کیس بھی دیکھے تھے اور بہت سی عورتوں کے بھی لیکن ایسا اس کے ساتھ کبھی نہیں ہوا تھا، اس کے کانوں میں نادیہ کی سسکیوں کی آوازیں گونجے جا رہی تھیں، اپنا دھیان بٹانے کے لئے وہ لیپ ٹاپ پہ ایک انگلش فلم لگا کے اسے دیکھنے میں مگن ہو گیا..

نادیہ کو ڈاکٹر شاہنواز کا گھر ڈھونڈنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آئی تھی، رکشے والے نے رکشا اس کے گھر کے سامنے ہی روکا تھا، اس نے رکشے والے کو پیسے دئے اور اپنا پرس سنبھالتی ہوئی گیٹ کی طرف بڑھ گئی، اسے یہ دیکھ کے تعجب ہوا کہ باہر سے اتنا خوبصورت گھر اندر سے پرانی ڈیزائن کا بنا ہوا تھا، کہیں کچا کہیں پکا تھا، آنگن میں اینٹیں بچھی ہوئی تھیں، ایک دو لوگ تیزی سے ادھر ادھر آ جا رہے تھے، اس کے ذہن میں  خیال آیا  کہ کہیں وہ غلط جگہ تو نہیں آ گئی، تبھی اچانک اس کی نظر سامنے بنے کمرے پہ پڑی جہاں بہت سی مشینیں رکھی ہوئی تھیں اور مریضوں کی بھیڑ موجود تھی، مریضوں کو دیکھ کے وہ سمجھ گئی کہ وہ سہی جگہ پر آئی ہے.
مس نادیہ......اسے پیچھے سے کسی کے آواز دی تو وہ گھبرا کے مڑی...شاہنواز لوور ٹی شرٹ  میں کھڑا مسکرا رہا تھا.
آپ  دئے گئے وقت سے پورے آدھے گھنٹے پہلے آئی ہیں، اسی لئے آپ کو میں ڈاکٹر کے لباس میں نہ ہوتے ہوئے گھر کے لباس میں دکھائی دے رہا ہوں، اب آپ بتائیں کہ آپ کچھ دیر ویٹ کرنا پسند کریں گی یا یونہی بات کرنا...شاہنواز نے جلدی جلدی تاویلات پیش کیں.

نہیں....آپ فریش ہو لیں، میں ویٹ کرتی ہو‍ں....اس نے شرمندگی سے کہا اور اندر ہی اندر خود کو جلدی آنے پہ ملامت کرنے لگی.
مشکل سے دس منٹ بعد شاہنواز واپس آیا تو وہ چونک گیا.
آپ ابھی تک یہیں کھڑی ہیں؟ 
جی....مجھے یہاں کے بارے میں کچھ پتا نہیں....اس لئے.
اووو...سوری....وہ دراصل میں جلدی میں تھا اس لئے بتا نہیں سکا، آئیں آپ میرے ساتھ....یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھنے لگا، چند قدم دور چل کے اس نے ایک کمرے کا دروازہ کھولا، جو ہو بہو ہاسپٹل والے کیبن جیسا تھا، وہ اس کے بولنے سے پہلے ہی سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئی، شاہنواز نے سامنے والی کرسی سنبھالی اور میز پہ رکھی گھنٹی دبائی، ایک لڑکی جس کی عمر تقریباً سولہ یا سترہ سال رہی ہو گی، اندر داخل ہوئی. 
جی سر...؟
پانی پلا دیں میم کو...
جی اوکے....وہ سر جھکا کے باہر چلی گئی.
پانی کے ساتھ کچھ لینا پسند کریں گی مس نادیہ؟ اب وہ مکمل طور پہ اس کی طرف مخاطب ہوچکا تھا.. 
نن...ن...نہیں....نادیہ ہچکچاہٹ کا شکار تھی.
آپ گھبرا کیوں رہیں ہیں...؟ پلیز....ریلیکس ہوکے بات کریں، ورنہ نہ میں وہ آپ سے پوچھ پاؤں گا جو پوچھنا چاہتا ہوں نہ وہ آپ بتا پائیں گی جو آپ بتانا چاہتی ہیں.

جی آپ سوال کریں میں سن رہی ہوں.
آپ کا کل کا دن کیسا گیا...؟
بالکل ویسا ہی جیسا روز کا جاتا ہے....اس نے عجیب بے تکے انداز میں جواب دیا.
جی...جی....ویسے بھی ایسا کچھ خاص تو تھا نہیں کہ کل کو یاد کیا جاتا.
جی....کیا؟؟؟؟ وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی.
نہیں کچھ نہیں... میں کل سے آپ کے کیس کے بارے میں ہی سوچے جا رہا تھا، اتنا سوچا....اتنا سوچا کہ جب سویا تو بھی آپ کو ہی خواب میں دیکھ رہا تھا...شاہنواز نے کہا.
خواب میں....وہ بھی مجھے....؟ اس نے بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے پوچھا 
جی......آپ کو.
کیا دیکھا؟ بتائیں تو.
پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ خوابوں پہ یقین رکھتی ہیں...؟
جی....میں صرف خوابوں پہ ہی یقین رکھتی ہوں..
کیا دیکھا؟ بتائیں تو.

میں نے دیکھا کہ آپ تیز تیز رو رہی ہیں اور میں نے جب چپ کرانے کے لئے ہاتھ آگے کیا تو آپ غائب ہوگئیں. 
ارے یہ کیسا خواب ہے؟ میں....میں تو کبھی روتی ہی نہیں.
کبھی نہیں روتیں؟؟ اس نے تعجب سے پوچھا
نہیں کبھی نہیں...
اچھا آپ کو یاد ہے آپ لاسٹ ٹائم کب روئی تھیں..؟
کون سا رونا؟ یونہی ایک دو آنسوؤں والا یا باقاعدہ والا....؟
باقاعدہ والا.....
نہیں مجھے یاد نہیں... 
اچھاااااا....شاہنواز نے اچھا کو بہت کھینچتے ہوئے ادا کیا.
ویسے آپ نے میرے بارے غلط دیکھا ہے.
مطلب...؟
مطلب یہ کہ مجھے سنبھلنے سے زیادہ سنبھالنے میں مزہ آتا ہے.....یہ کہتے ہوئے وہ ہنس پڑی لیکن اس کی ہنسی میں جو درد تھا اس نے شاہنواز کو اندر تک ہلا دیا تھا.

پتا نہیں وہ واقعی بہت ٹوٹی ہوئی تھی یا بس شاہنواز کو لگتی تھی.
کب سے آپ ہی پوچھے جارہے ہیں کیا میں کچھ پوچھ سکتی ہوں...اس نے اس معصومیت سے پوچھا کہ وہ اس کی نفی نہ کر سکا. 
آپ تو بہت بڑے ڈاکٹر ہیں نا.....آپ کو تو بہت پیسے ملتے ہوں گے، پھر یہ گھر پرانی حویلی جیسا کیوں ہے؟ دیکھ کے ہی خوف آتا ہے.
میں اپنی آدھی تنخواہ چیرٹی میں دے دیتا ہوں.
ایسا کیوں؟؟؟
کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے زیادہ غریبوں اور بے سہاروں کو اس کی ضرورت ہے.
ہیں....؟ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں دنیا میں؟ اس نے تعجب سے کہا تو شاہنواز کی ہنسی چھوٹ گئی.
یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں مس نادیہ..
پھر اپ کی فیملی؟ وہ غصہ نہیں کرتے آپ پہ؟ مطلب آپ کے بیوی بچے وہ کچھ نہیں کہتے..؟ 
جی میری شادی نہیں ہوئی..اس نے اس بار سنجیدہ ہو کے جواب دیا.
لیکن شادی کیوں نہیں ہوئی..؟ 
کیونکہ میں محبت کے بغیر شادی کا سخت مخالف ہوں اور محبت ابھی تک تو ہوئی نہیں.

اوکے اوکے...تو امی ابو وہ کہاں ہیں؟ ان سے کہیں نا لڑکی ڈھونڈیں، پھر آپ اس سے بات کرئیے، یقیناً محبت ہوجائے گی آپ کو.....آج کل کے لڑکوں کو محبت بہت جلدی ہوجاتی ہے..
اور لڑکیوں کو....؟
لڑکیوں کا مجھے پتا نہیں.
کیوں آپ لڑکی نہیں ہیں...؟ 
لڑکی ہوں لیکن اور لڑکیوں سے مختلف ہوں..
ہمممم.. وہ تو مجھے سمجھ آرہا ہے.
میرے والدین نہیں ہیں....اس نے اپنی آنکھوں سے پانی صاف کرتے ہوئے کہا.
ہیں....آپ رورہے ہیں...؟ مرد روتے بھی ہیں...؟ الہی دنیا کا آٹھواں عجوبہ...وہ منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی اور اسے پتا نہیں کیا ہو رہا تھا، وہ خود پہ کنٹرول نہیں کر پارہا تھا، آنسو گالوں پہ ضدی بچے کی طرح بہتے ہی جا رہے تھے....شاید آج تک اس سے کسی نے اتنی اپنائیت سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا تھا..
سوری سوری.....نادیہ اسے روتا دیکھ کے گھبرا گئی اور جلدی سے پرس سے رومال نکال کے اس کی طرف بڑھا دیا....اس نے آنسو صاف کئے اور رومال اپنی جیب میں رکھ لیا..نادیہ نے اس کی اس حرکت کو نوٹ تو کیا لیکن کچھ بولی نہیں.

سوری مس نادیہ...میں ذرا ایموشنل ہوگیا تھا.
اٹس اوکے....ہوجاتا ہے کبھی کبھار آپ گلٹی فیل نہ کریں.
میری دوا...؟ نادیہ نے اس سے ایسے کہا جیسے وہ اس سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہو..
جی آپ کی دوا شام تک آپ کے گھر پہنچ جائے گی باہر ایڈریس لکھوا دیں.....مجھے اب کچھ دیر آرام کی ضرورت ہے....یہ کہہ کے وہ کمرے سے باہر نکل گیا.
نادیہ نے سکون کی سانس لی اور دوپٹہ سنبھال کے باہر نکلنے کو ہوئی کہ وہ پھر سے تیزی سے اندر داخل ہوا....نادیہ گھبرا کے پیچھے ہٹی.
دوا صرف پانچ دن کی لیجئے گا اور پانچ دن بعد اسی وقت آکے مجھے بتائیے گا کہ آپ نے دوا لینے کے بعد کیسا محسوس کیا......شاہنواز جلدی جلدی بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا اور نادیہ رکشے والے کو فون کرنے لگی.
شام تک دوا آ چکی تھی، صرف دس گولیاں...اس نے حیرت سے دوا کی طرف دیکھا... پھر سر کو جھٹک کے دوا بیڈ کے سراہنے رکھ کے خود کام میں مصروف ہو گئی... نادیہ پھر سے اپنی روٹین میں مگن ہو گئی تھی لیکن شاہنواز......اس کے ساتھ بہت عجیب ہورہا تھا، وہ جب بھی آنکھ بند کرتا اسے نادیہ کا کبھی ہنستا چہرہ سامنے دکھنے لگتا، کبھی روتا ہوا، وہ بار بار اپنا ذہن جھٹکتا لیکن وہ اسے اپنے ذہن سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا....یا خدا یہ لڑکی کیسا جادو کر گئی ہے مجھ پہ؟ آئی تھی اپنا علاج کروانے اور مجھے مریض بنا کے چلی گئی ہے...وہ سوچتا رہتا.

نادیہ سے ملے اسے چوتھا دن تھا، یعنی نادیہ کو دو دن بعد دوبارہ دوا کے لئے آنا تھا... دو دن.....یہ سوچ کے ہی وہ گھبرانے لگا تھا، وہ اپنے مریضوں پر بھی مکمل توجہ نہیں دے پا رہا تھا 
اور اس کی ایسی حالت دوسرے مریضوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی، اس نے ہاسپٹل میں فون کرکے تین دن چھٹی کا کہا اور خود پریشان سا کمرے میں گھومنے لگا....اچانک اس کے ذہن میں کچھ خیال آیا اور وہ باہر رکھی مریضوں کی فائل اٹھا لایا، اس نے جلدی جلدی فائل کھولی اور چار دن پہلے آئے مریضوں کے نام دیکھنے لگا... 
نادیہ.....اسے یہ نام دکھائی دیا تو وہ مسکرانے لگا، جیسے اس کی کوشش کامیاب ہو گئی ہو....اس نے جلدی جلدی موبائل میں وہاں لکھا نمبر ملایا اور کمرے میں آ گیا. 
دو رنگ کے بعد کال اٹھا لی گئی..
السلام علیکم....ادھر سے فون رسیو ہوتے ہی سلام کیا گیا اور وہ جو ہمیشہ ہیلو سننے کا عادی تھا گڑبڑا گیا.
کون ہے؟ ادھر سے پھر آواز سنائی دی. 
جی...وعلیکم السلام میں ڈاکٹر شاہنواز بات کررہا ہوں..اور آپ....؟
جی.....میں نادیہ.
کیا ہوا ؟ خیر تو ہے سب..؟

جی سب خیر....بس آپ سے دوا کے متعلق پوچھنا تھا.
دوا وہ تو پانچ دن کی تھی نا....ابھی تو کھاتے ہوئے تین دن ہی ہوئے ہیں...نادیہ نے جواباََ کہا تو شاہنواز کو اپنی اس بچکانہ حرکت پہ غصہ آنے لگا پھر وہ بات سنبھالتے ہوئے بولا.
جی...جی، تین دن ہی ہوئے ہیں، دو دن میں دوا اپنا اثر دکھا دیتی ہے، اس لئے کال کی ہے کہ اگر کوئی پریشانی ہو رہی ہو دوا سے تو میں چینج کر دوں؟ 
جی....بس مجھے نیند بہت آتی ہے اس سے، اس نے عجیب بچوں کی طرح روتے ہوئے انداز میں کہا.
ارے ارے...آپ پریشان مت ہوں...آپ ایسا کریں ابھی آ جائیں.
ابھی....؟ دن کے بارہ بج رہے ہیں؟ ہم نے تو نہ ابھی کھانا کھایا نہ نماز پڑھی ہے....نادیہ نے کہا.
ٹھیک ٹھیک....آپ آرام سے تین بجے تک آ جائیں، میں پانچ بجے تک گھر پہ ہی ہوں...اور سنیں مس نادیہ...میں کل ایموشنل ہو گیا تھا، اس لئے ایک دو سوال رہ گئے تھے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو یہاں بتا دیں....شاہنواز کا فون رکھنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا اس لئے اس نے اس طرح بات آگے بڑھائی. 
جی جی کہیں...میں سن رہی ہوں..

آپ کا کوئی دوست ہے؟ جس سے آپ اپنی ہر بات شیئر کرتی ہوں..؟
نہیں....اس نے لا تعلقی سے جواب دیا.
لیکن کیوں....؟ ہر شخص کا کوئی نہ کوئی دوست، ہمراز تو ہوتا ہے نا، آپ کا کیوں نہیں ہے...؟
کیونکہ مجھے کسی پہ بھروسہ نہیں ہے....اس نے لفظ کسی پہ تھوڑا زور دیتے ہوئے کہا.
اچھا اوکے...بس ایک اور سوال، پھر آپ اپنا کام دیکھ سکتی ہیں.
جلدی کریں مجھے بھوک بہت تیز لگی ہے...نادیہ نے اس بیچارگی سے کہا کہ شاہنواز ہنس پڑا. 
اچھا سوال سنیں.....آپ اپنا فری وقت کہاں لگاتی ہیں...؟
ڈائری لکھنے میں... 
وااااااااؤ...شاہنواز اس بار واقعی خوش ہوا تھا، اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ اب وہ اس کی ڈائری کے زریعے اس کی نفسیات اچھے سے سمجھ لے گا.
کیا لکھتی ہیں آپ ڈائری پہ..؟ اپنی باتیں، اپنی خواہشات، اپنے راز....کیااا؟  اس نے سوال کو ذرا سا طویل کرتے ہوئے پوچھا.
جی یہ کچھ نہیں....بس کچھ نظمیں، کچھ یادیں، کچھ غزلیں، کچھ ایسے جملے جو میرے ذہن میں آتے ہیں...

ہمممممممممم.....شاہنواز کو جیسے لگا وہ اک بار پھر ہار گیا. اچھا سنیں.....آپ جب آج آئیں تو اپنی ڈائری لیتی آئیں اگر آپ کو برا نہ لگے تو.
جی جی ٹھیک.....برا کیا لگنا میرے لئے اعزاز ہوگا...ہاں پڑھنے کے بعد رائے ضرور دیجئے گا.
ضرور ان شا اللہ....اوکے اب آپ جاسکتی ہیں.
اللہ حافظ..
جی اوکے....اللہ حافظ، السلام علیکم...
سلام کر کے نادیہ کی طرف سے کال کاٹ دی گئی تھی
اس بار نادیہ تین بجے کے بجائے ساڑھے تین بجے اس کے گھر پہنچی، اس نے دیکھا کہ شاہنواز کسی سے فون پہ بات کر رہا تھا، اس نے ہلکی آواز میں سلام کیا اور صوفے پہ جا کے آرام سے انتظار کرنے کی نیت سے بیٹھ گئی.
دو منٹ بات کرنے کے بعد شاہنواز اس کی طرف آیا اور سامنے بیٹھتے ہوئے بولا!
وعلیکم السلام....بتائیں کیسی طبیعت ہے آپ کی..؟
جی بہتر....آپ کو دوا چینج کرنی تھی شاید..؟
جی جی....آپ ایسا کریں وہ دوا لیتی رہیں، باقی یہ ایک اور میڈیسن میں لکھ دیتا ہوں، ساتھ یہ بھی لیں...ان شا اللہ نیند بس اتنی آئے گی جتنی آپ کو ضرورت ہے..

جی شکریہ....وہ اٹھ کے جانے لگی تو اس نے آواز دی مس نادیہ....تھوڑی دیر اور بیٹھ جائیں.. پلیززز
وہااااااااٹ.....؟ اس نے سخت غصے میں کہا، اور ہاں آج کے بعد آپ مجھے میرے نام سے بلانے کے بجائے مسز کاشف احمد کہیں مجھے اچھا لگے گا...اس نے مزید کہا اور یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئی، جاتے جاتے دروازے کو تیزی سے بند کرنا نہیں بھولی تھی.
شاہنواز کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو امڈ آئے، اسے خود پتا نہیں تھا کہ وہ اپنی قسمت پہ رو رہا ہے یا نادیہ کے اس رویے پہ، اسے نادیہ کا آج کا رویہ سخت تکلیف میں مبتلا کرگیا تھا....اسے یہ احساس اس سے ملنے کے دوسرے دن ہی ہو گیا تھا کہ وہ اس سانولی لڑکی پہ دل ہار گیا تھا لیکن اس نے یہ بھی کبھی نہیں سوچا تھا کہ اک عام سی لڑکی اسے اس طرح ریجیکٹ کر کے بھی جاسکتی ہے....بیچینی بڑھتی جارہی تھی، وہ جتنا خود کو سنبھالتا اتنا ہی ٹوٹتا جا رہا تھا، اس کے ذہن میں بس دو ہی الفاظ گونج رہے تھے...مسز کاشف احمد...مجھے اچھا لگے گااااا....اس کی یہ کیفیت اب اس کے کنٹرول سے باہر ہونے لگی تھی، وہ دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں گیا اور ریک میں سے ایک میڈیسن نکال کے بنا پانی کے ہی چبا کے کھا گیا....میڈیسن نے اثر دکھانا شروع کیا، اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور پھر وہ بیڈ پہ لیٹ کے گہری نیند سوگیا...

اس کی آنکھ کھلی تو اندھیرا چاروں طرف پھیل چکا تھا، موبائل جلا کے ٹائم دیکھا تو شام کے آٹھ بج چکے تھے....بیچینی ابھی بھی کم نہیں ہوئی تھی، البتہ ذہن اب کچھ حد تک سنبھل چکا تھا. اس نے فون اٹھایا اور کھانے کا آرڈر دیا....اسے ویسے باہر کا کھانا پسند نہیں تھا لیکن آج اس میں کھانا بنانے کی ہمت بھی تو نہیں تھی....بیڈ سے اتر کے اس نے چپل پہنی اور آنگن کی طرف نکل آیا، سارا اسٹاف جا چکا تھا...اچانک اس کی نظر اس کے کیبن پہ پڑی اور وہ پھر انہیں تلخ یادوں کا شکار ہوگیا...خود کو سنبھالتے ہوئے وہ کیبن کی طرف بڑھ گیا، دروازہ کھولتے ہی اسے محسوس ہوا کہ نادیہ سامنے ہی بیٹھی ہے، وہ مسکرا کے اس کی طرف بڑھا تو وہاں صرف صوفہ پایا، وہ بالکل وہیں پہ بیٹھ گیا جہاں نادیہ بیٹھی تھی اور خود ہی خود سے باتیں کرنے لگا چند منٹ باتیں کرنے کے بعد وہ بولا اچھا میں چلتی ہوں اللہ حافظ.....یہ کہہ کے زور زور سے ہنسنے لگا.
ذہنی مریضوں کو ٹھیک کرنے والا ڈاکٹر آج خود ذہنی مریض بن گیا تھا، وہ بھی صرف ایک لڑکی کی وجہ سے. وہ جیسے ہی باہر نکلنے کو ہوا، اس کی نظر صوفے کے پاس پڑی ایک ڈائری پہ پڑی....یہ ڈائری.....اووو....میں نے ہی تو اس سے کہا تھا لانے کو.....وہ شاید بھول گئی یا چھوڑ گئی....خیر جو بھی ہو....شاہنواز ڈائری پا کے بہت خوش ہو رہا تھا...وہ تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور ڈائری کو بیچ و بیچ سے کھول دیا....وہاں کچھ لائینیں لکھیں تھیں جسے وہ غور سے پڑھنے لگا...

یہ پیار محبت جھوٹ ہے سب
یہ عشق و وفا بس باتیں ہیں
وہ باتیں جن کا سچ ہونا 
مشکل ہی نہیں ناممکن ہے
کچھ پل لمحے پہلو میں رہے
کچھ اپنا کہا کچھ اس کا سنا 
کچھ جسم کی خوشبو رنگ لائی 
کچھ سانس کی گرمی رنگ لائی 
احساس کی بارش ہونے لگی
جذبات نے دل کو ڈھانپ لیا 
کچھ ہونے کا احساس ہوا
کچھ فیلنگ بدلی ہلکی سی 
وہ شاید بھوک تھی جسموں کی
جس کو دو پاگل لوگوں نے
سمجھا تھا محبت، عشق، وفا
کچھ لمحے گزرے راحت کے 
کچھ الجھن دل کی دور ہوئی 
پھر پیٹ میں پہنچا کچھ کھانا 
اور بھوک کی شدت دور ہوئی 
کچھ لطف میں ہلکا پن آیا 
وہ بھوک کا پردہ جب ٹوٹا 
اور خواہش سب تکمیل ہوئی 
احساس کی شدت مرنے لگی
نہ عشق رہا نہ پیار رہا 
دو جسم جدا ہلکے سے ہوئے
اور عشق دفن بستر میں ہوا 
سب پہلے جیسا ہونے لگا 
اور عشق تڑپ کے رونے لگا

یہ نظم نادیہ کے مزاج کے مکمل عکاسی کر رہی تھی لیکن یہ نظم اس نے نہیں لکھی تھی کیونکہ نیچے اس نے کاپی لکھ رکھا تھا....اس نے دوسرا پیج کھولا.... 
انسان سب سے بڑا دھوکہ خود کو تب دیتا ہے جب وہ محبت کرتا ہے....محبت انسان کو نہ اپنا رکھتی ہے نہ پرایا....محبت انسان سے اس کی عزت نفس بھی چھین لیتی ہے....مجھے نا محبت پہ یقین ہے نا دوستی پہ، مجھے سب سے ذیادہ غصہ تب آتا ہے جب کوئی بھی مجھ سے محبت کی باتیں کرے یا رومانس کرنے کی کوشش کرے، بھلے وہ میرا اپنا شوہر کاشف احمد ہی کیوں نہ ہو...یہ پڑھتے ہوئے شاہنواز کو وہ خود اور کاشف ایک ہی کشتی کے دو مسافر لگ رہے تھے، اس کی نظر اچانک نیچے لکھے نام پہ پڑی نادیہ کاشف احمد....یہ نام پڑھتے ہی اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں، اس نے ڈائری بند کر دی اور آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کے وہیں بیٹھ گیا....وہ انہیں سب سوچوں میں گم تھا کہ اسے اپنے پاس سے کسی کی آواز سنائی دینے لگی.
ڈاکٹر شاہنواز! تم تو نے تو شادی اس لئے نہیں کی تھی کہ تم محبت کے بنا شادی نہیں کروگے...اب کیا خیال ہے؟ اور پھر اپنے آس پاس بہت سے لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں....

وہ دونوں ہاتھ کان پہ رکھ کے چیخ پڑا خاموش رہو، خدا کے لئے خاموش رہو تم لوگ، میں پاگل ہوجاؤں گا.
باہر دروازے کی دستک نے اسے ان خیالات سے باہر نکالا وہ ماتھے پہ آئی ہوئی پسینے کی بوندیں صاف کرتا ہوا کھانا لینے کے لئے کمرے سے باہر نکل آیا... 
بوڑھے بابا کھانا لئے اس کے کمرے کے باہر کھڑے تھے، وہ جب بھی کھانا آرڈر کرتا تو اس کی خاص تنبیہ ہوتی کہ کھانا بوڑھے بابا سے ہی بھیجا جائے جو اس کے گھر اس کی امی ابو کے وقت سے آتے جاتے تھے... 
کھانا لیکے وہ منہ دھونے چلا گیا..
منہ دھو کے اس نے کھانے کی طرف نظر ڈالی، دال، پنچ میل سبزی، اچار، دہی، روٹی، تھالی میں موجود منہ چڑا رہیں تھیں، اس نے بغیر من کے ایک دو نوالے کھائے اور تھالی میز پہ رکھ کے پھر سے اس پہ اخبار ڈھک دیا...وہ بخوبی جانتا تھا کہ وہ محبت کے چکرویوہ میں پھنس گیا ہے...اسے اس چکرویوہ سے جتنی جلدی ممکن ہو نکلنا تھا....وہ خاموشی سے بیڈ پہ لیٹ گیا اور نئے نئے پلان ترتیب دینے لگا.۔۔۔

صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی، اس نے موبائل اٹھا کے دیکھا تو کلینک کی پانچ کال پڑی ہوئیں تھیں...اس نے فوراً کال بیک کی اور کچھ دیر کے لئے سہی سنجیدگی سے باتیں کرنے لگا.. 
دیکھیں ڈاکٹر مظہر! میرے لئے یہ فیصلہ لینا آسان نہیں تھا لیکن آپ یہ سمجھیں کہ اگر میں یہ فیصلہ نہیں لوں گا تو میں اپنے ساتھ اور بھی کئی لوگوں کی خوشیوں کا قاتل بن جاؤں گا، آپ پلیزز میرے حالات سمجھیں اور مجھے اجازت دیں.. 
ٹھیک ہے ڈاکٹر شاہنواز لیکن ہمیں آپ کے یوں اچانک چلے جانے کا بہت افسوس رہے گا..
تھینکس تھینکس... 
اس نے موبائل کان سے ہٹایا اور دوسرے ضروری نمبر ڈائل کرنے لگا....ایک گھنٹہ مسلسل بات کرنے کے بعد اس نے موبائل میں اپنا پسندیدہ نمبر ڈائل کیا اور موبائل کان میں لگا کے رسیو ہونے کا انتظار کرنے لگا...
رنگ پوری ہو گئی لیکن فون رسیو نہیں ہوا، اس نے پھر سے کال کی، اس بار پہلی رنگ پہ ہی فون اٹھا لیا گیا... 

جی کہیں....بیزاری سے بھری ہوئی اسے نادیہ کی آواز سنائی دی.. 
السلام علیکم....اس بار اس نے سلام میں پہل کی.
وعلیکم السلام....
اب آپ کی طبیعت کیسی ہے...؟
آپ میرے ڈاکٹر ہیں نہ کہ رشتہ دار.....آپ مجھے صبح و شام فون کرکے خیریت کیوں پوچھتے ہیں..؟ نادیہ نے ناگواری سے کہا. 
دیکھیں مس.....نہیں...مسز کاشف احمد....آپ بس دو منٹ میری بات سن لیں، میں وعدہ کرتا ہوں اس کال کے بعد آپ کو میری کبھی کال نہیں آئے گی....اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں التجا کرتے ہوئے کہا تو نادیہ کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں...نادیہ نے یکدم اپنے آپ کو سنبھالا اور ایک بار پھر لہجہ سخت کرتے ہوئے بولی! جی جلدی کہیں جو کہنا ہے....مجھے ضروری کام نمٹانے ہیں.. 
کیا آپ آج مجھے شام پانچ بجے سٹی اسٹیشن پہ مل سکتی ہیں؟ مجھے آپ کی ڈائری واپس کرنی ہے اور آخری بار دیکھنا بھی ہے پلیززز  منع مت کرئے گا.
آخری بااااار...؟ اس نے سوالیہ انداز میں دہرایا. 
جی آخری بار....میں یہ شہر چھوڑ کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جا رہا ہوں، آپ بس وقت سے آ جائیے گا، کہیں ایسا نہ ہو آپ کی یہ ڈائری آپ کی طرح میرے پاس ہی رہ جائے.
اوکے میں کوشش کروں گی...

اچھا سنیں.....میرے لئے ایک چھوٹا سا گفٹ بھی لے لیجئے گا، میں اسے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں پلیززز... 
اوکے ٹھیک ہے اللہ حافظ....کال کٹ گئی تھی
اس کو لگ رہا تھا جیسے اس کے اوپر سے کوئی بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا ہو، وقت کم تھا، تیاری زیادہ کرنی تھی، وہ جلدی جلدی پیکنگ میں لگ گیا...چار بجے گاڑی اس کے دروازے پہ تھی، اس نے سامان گاڑی میں رکھوایا اور اسٹیشن پہ آدھا گھنٹہ پہلے ہی پہنچ گیا، پتا نہیں وہ آئے گی یا نہیں؟ یہ سوچ اس کے ذہن میں تب سے ہی آ رہی تھی جب سے اس نے اسے فون پہ آنے کے لئے کہا تھا، انتظار کا وقت بہت طویل ہوتا ہے، اسے آج سمجھ آ رہا تھا ورنہ آج تک تو اس نے بس مریضوں سے انتظار کروایا تھا...اس نے جیب سے موبائل نکالا اور وقت دیکھا پانچ بجنے میں دس منٹ باقی تھے یعنی ابھی دس منٹ اور امید کے بچے ہیں اس نے موبائل جیب میں رکھا کہ اسے اپنے پیچھے سے وہی جانی پہچانی آواز سنائی دی... 

السلام علیکم... 
وعلیکم السلام....وہ خوشی سے مڑا اور چمکتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا، آج بھی وہ بالکل ویسے ہی آئی تھی جیسے پہلے دن تھی.
کیسے ہیں آپ....؟ نادیہ نے اس کا تخیلاتی حصار کو توڑنے کی ناکام سی کوشش کی لیکن وہ بس اسے دیکھے ہی جارہا تھا عجیب نظروں سے.. 
میں نے پوچھا کیسے ہیں آپ؟ اس بار اس نے تھوڑی تیز آواز میں اپنے لفظوں پر دباؤ دیتے ہوئے کہا.. 
جی جی....میں بالکل ٹھیک.....آپ کہیں؟ 
ٹھیک ہوں تب ہی تو آپ کے سامنے کھڑی ہوں...دیجئے میری ڈائری کہاں ہے..؟
پہلے آپ مجھے میرا گفٹ دیں.
پہلے آپ مجھے ڈائری دیں، آپ کا گفٹ آپ کو جانے سے پہلے ہی مل جائے گا، پریشان مت ہوں. 
وقت کم تھا اس لئے شاہنواز نے ضد نہ کرتے ہوئے اس کی ڈائری اس کی طرف بڑھا دی....ڈائری ہاتھ میں لیتے ہی نادیہ نے تھینکس کہا.
صرف تھینکس...؟ ہمیشہ کے لئے جارہا ہوں کچھ تو ایسا کہہ دیں جسے سوچ کے میں ساری زندگی مسکراتا رہوں.....اس نے مسکراتے ہوئے تکلیف کو اندر ہی اندر چھپاتے ہوئے کہا.

اس نے پرس میں ہاتھ ڈالا اور ایک گلاب اس کی طرف بڑھا دیا، اس نے اس کے ہاتھ سے گلاب لیا تو دیکھا کہ تازے گلاب پہ خون کی چھینٹیں پڑی ہوئی تھیں اور پتیاں کہیں سے ٹوٹی ہوئی تھیں اور کہیں سے مڑی ہوئی..
یہ...یہ کیسا گلاب ہے...؟
ایک زخمی گلاب کی جانب سے آپ کے لئے ایک زخمی گلاب....یہ کہتے ہوئے وہ مسکرا دی...اچھا جانے سے پہلے آپ کے لئے دو نیوز ہیں ایک بیڈ ایک گڈ.... 
اچھااااا جلدی بتائیں ٹرین کے نکلنے کا وقت ہوچلا ہے...شاہنواز نے اتاولے پن سے پوچھا. 
ہمممم... 
پہلے گڈ نیوزسنیں....مجھے پتا ہے اپ کو مجھ سے محبت ہے. 
شاہنواز نے اپنا ہاتھ اسے چھونے کے لئے بڑھایا.
وہ فوراً بولی رکیں....بیڈ نیوز بھی سن لیں.... 
کہئیے... 
بیڈ نیوز یہ ہے کہ مجھے یہ بھی پتا ہے کاشف کو بھی مجھ سے بے انتہا محبت ہے......ٹرین ہلکے ہلکے چلنے لگی تھی، اس کے کولیگ نے اسے آواز دی اور وہ بوجھل قدموں سے ٹرین کی طرف چل دیا....

۔🍂🍂🍂


More Books by Sagheer

1

जाने और अनजाने में बस तेरा नाम पुकारा करते हैं

12 May 2022
1
0
0

जाने और अनजाने में बस तिरा नाम पुकारा करते हैं!अक्सर ही दीवारों पर तिरी तस्वीर उतारा करते हैं!आतिश ए इश्क़ने बख़्शे

2

मुझे याद है सभी किस्से वो इश्क़ का ज़माना

12 May 2022
4
0
1

मुझे याद हैं सभी किस्से वो इश्क़ का ज़माना!कभी रूठना वो उनका कभी उनका वो मनाना!मुझे तल्ख़ लहजा बचपन से नहीं पसंद सुन

3

अपनी बातों को ही मनवाया करता हूँ

12 May 2022
5
1
2

अपनी बातों को ही मनवाया करता हूँ! आईने से भी लड़जाया करता हूँ!हुस्न और इश्क़ से ही दुनिया क़ायम है, भँवरा बन&nbs

4

तुम्हारी जुल्फ़ों के साए से भी न जाने क्यों डर सा लग रहा है

24 June 2022
1
1
0

तुम्हारी जुल्फों के साए से भी, न जाने क्यूँ डरसा लग रहा है!कोई तो है आस पास अपने, या सिर्फ मुझको गुमाँ हुआ है!किसी की आँखों में अश्क हैं तो,किसी के चहरे पे मुस्कुराहट,अजीब रस्में&nbs

5

नज़रें मिला के उसने तो यार कमाल कर दिया

24 June 2022
0
0
0

नज़रें मिला के उसने तो यार कमाल कर दिया!एक हसीना ने मिरा जीना मुहाल कर दिया!फैली तो है ये बात भी श

6

मेरा हाल वो मेरी तबीयत क्या जाने

24 June 2022
0
0
0

मेरा हाल वो मेरी तबीयत क्या जाने!कब सँभलेगी अपनी हालत क्या जाने!वो जो पाई पाई का रखता

7

मेरा दिल ही मेरे पेहम नहीं है

24 June 2022
0
0
0

मेरा दिल ही मेरे पैहम नहीं है!मैं कैसै कह दूँ कोई ग़म नहीं है!बड़ी नरमी से तुम हो पेश आते,तुम्हारी ज़ुल्

8

तू मेरी जान है लख़्ते जिगर है

24 June 2022
0
0
0

तू मेरी जान है लख़्ते जिगर है!तभी तो हर घड़ी ज़ेरे नज़र है!हक़ीक़त पूछते हो तो सुनो फिर,तुम्हीं से ज़िन्दगी ये मोतबर है! ये बढ़ता

9

तुम्हारी आँख में ठहरा हुआ हूँ

12 July 2022
4
1
2

तुम्हारी आँख में ठहरा हुआ हूँ!कभी आँसू कभी सपना हुआ हूँ!मैं किसके हाथ की ज़ीनत बनूँगा,हिनाई शाख़ से टूटा

10

मुहब्बत की सिफ़ारिश हो रही है

12 July 2022
2
0
0

मुहब्बत की सिफारिश हो रही है! किसी के दिल में सोज़िश हो रही है!सुना है नाम है कुछ और उसका,मगर वो दिल की नाज़िश हो रही है!मुहब्बत की हैं

11

افسانہ 🍁 زخمی گلاب🍁

25 July 2022
0
0
0

🍁 افسانہ 🍁 🌹 زخمی گلاب 🌹تحریر : 🍂 زویا شیخ 🍂نادیہ نادیہ وہ آواز دیتا ہوا گھر میں داخل ہوا.نادیہ یہ کیا ہر وقت تم اندھیرے کمرے میں بند رہتی ہو؟ عجیب حالت بنا رکھی ہے اپنی اور گھر کی؟ وہ شدید غصے

---